اِلزام تراشی
کچھ لوگوں کے خیال میں باطونی ہوناکوئی مسلۂ نہیں۔ اِس پر کچھ خرچ نہیں ہوتا بلکہ باتیں کرنے سے ہی تو کاروبار ہوتا ہے، پیسہ کمایا جا تا ہے، اور دوسروں کو اپنے موقف پرقائل کیا جاتا ہے۔ ترقی کرنے کے لئے بہت سے دوسرے طریقوں میں سے ایک طریقہ دوسروں پر الزام تراشی بھی ہے جس کے وسیلہ ہم دوسروں کو نیچا دیکھا کر خود کو بڑھا بنا سکتے ہیں۔ ایسی گفتگو کا مقصد کسی کی شخصیت کو مشکوک قرار دینا ہوتاہے۔ بعض اوقات کسی سچائی کو بھی بُرے طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے کیونکہ غیبت کرنا یا الزام لگانا ایک شیطانی فن ہے جس کا موجد بھی وہ خود ہی ہے (پیدائش 3: 1-5)۔غیبت پورا سچ نہیں بتاتی بلکہ کسی کی ساکھ کو ٹھیس پہنچانے کے لیے جھوٹ کو معتبر بناتی ہے۔ الزِام تراشی، تمام جُھوٹ کی طرح، سچ اور جُھوٹ کا مرکب ہوتا ہے جو بدنیتی پر مبنی دل سے نکلتا ہے۔ اِس کا مقصد کسی شخص کے کاروبار، کلیسیائی اور معاشرہ میں تعلقات اور کام کو غیر فعال کرنا اورالزام تراشی کرنے والے کو اہمیت دیناہوتا ہے۔
مُقدس یعقوب کا کہنا ہے کہ مسیحیوں کے درمیان ایسی گفتگو ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔ انہیں ایک دُوسرے کے ساتھ مقابلہ نہیں کرنا چاہیے۔ وہ خُدا کے خاندان میں بہن بھائی ہیں۔ کسی رُوحانی بہن یا بھائی پر بہتان لگانا اُن کے کردار کو لوگوں میں اْچھالنے کے مترادف ہے۔یہ غلط ہے کیونکہ خدا ہی واحد منصف ہے اور اُس کی شریعت ہی اس کا انصاف کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔ اگرایماندار اپنے فائدے کے لیے اپنے فیصلے خود کرتے ہیں تو نہ صرف وہ متکبر ہوتے ہیں بلکہ ان کے دل میں خُدا نہیں ہوتا۔ اسی لئے وہ نہ تو غیر جانبدارانہ فیصلہ کر سکتے، نہ رحم کر سکتے اور نہ ہی فضل کو سمجھتے ہیں۔ خاندان کے کسی فرد کو بدنام کرنے کے لیے اُن کی رضامندی کی بنیاد محبت پر نہیں ہوتی۔ وہ خدا کی شریعت کی پاسداری نہیں کرتے اس لیے وہ الٰہی عدالت کے خطرے میں ہیں۔ وہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ سب نے گناہ کیا اور خُدا کے جلال سے مُحروم ہیں ' (رومیوں 3: 23)۔ وہ اس احمقانہ سوچ کے حامل ہیں کہ وہ اخلاقی طور پر اعلیٰ معیار رکھتے ہیں۔ جیسا کہ مُقدس یعقوب ہمیں سکھا چکا ہے کہ " 'خُدا مُغروروں کا مقابلہ کرتا ہے اور فرتنوں کو توفیق بخشتا ہے۔(یعقوب 4: 6)
غرور، اُن ایمانداروں کے اخلاقی معیار کو کمزور کرتا رہتا ہے جو خدا کے سامنے عاجز نہیں ہوتے۔ غیبت اور الزام تراشی ایمانداروں کے گھروں کلیسیاؤں میں اکثر دیکھی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اُن کی عام گفتگو کا حصہ ہوتی ہے۔مُقدس یعقوب کے نزدیک یہ شرمناک بات ہے۔ بعض ایمانداراپنے کاروباری معاملات اوراپنی معاشرتی زندگی میں کچھ ایسا ہی رویہ رکھتے ہیں۔ اْن کے مُغرور دل اْن کو انصاف سے بیزارکر دیتے ہیں اور وہ کمزوروں کی مدد کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ اگر آپ ایسے لوگوں کو جانتے ہیں تو اُن کے لیے دُعا کریں (گلتیوں 6: 1-5)۔ لیکن اگر آج کاکلام آپ کے لئے ہے تو توبہ کریں اور خْداوند سے اپنے دل کو بدلنے کی دُعا مانگیں۔ اسی سے آپ کی رُوحانی ترقی ہو گی جو جسمانی اور معاشی ترقی سے کہیں بہتر ہے۔